مختصر بیان: بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے ہجرت کےبعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسجد اقصٰی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺسفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے‘‘ (سورہ الاسراء )۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔سیدنا عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو سیدنا عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں ۔اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے ۔یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآب میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخِ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کےخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔بیسویں صدی کےحادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے ۔ یہود ونصاریٰ نےیہ مسئلہ پیدا کر کے گویا اسلام کےدل میں خنجر گھونپ رکھا ہے ۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کےبعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید ، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اورلاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کےملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحمت حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔اوراقوام متحدہ اوراس کے کرتا دھرتا امریکہ اور پورپ کےممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’قدس کویہودی شہر بنانےکی کو شش ‘‘ ڈاکٹر انور محمد زناتی کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب اسرائیل کے ارض فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے میں ایک معتبر، مفصل، حقیقت پر مبنی اوراسرائیل سازش کودوپہر کی دھوپ کی طرح واضح کرنے دینے والی دستاویزی تالیف ہے ۔ جس میں سرکاری وثائق ، تصویروں اور نقشوں کے ذریعے اسرائیل کی تاریخی دہشت گردی کو واضح کیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عالمِ اسلام کی غیرت کو بیدار کرنے کاذریعہ بنائے اور بیت – المقدس جلد اس کےحقداروں کے ہاتھ آجائے (آمین)
Jerusalem is the first qiblah of the Muslims. For 16 to 17 months after the migration, the Muslims used to offer their prayers facing the Holy City (Al-Aqsa Mosque). Al-Aqsa Mosque is the third holiest site after the Kaaba and the Prophet’s Mosque. Local Muslims call it Al-Aqsa Mosque or Haram Qudsi Sharif. It is located in East Jerusalem, which is occupied by Israel. It is the largest mosque in Jerusalem with a capacity of 5,000 worshipers and thousands of people can pray in the courtyard of the mosque. The Holy Prophet arrived here from the Sacred Mosque during the Ascension and prayed for all the Prophets in Jerusalem. After leading the prayers, he set out on a journey to the seven heavens through Baraq. In Surah Al-Isra ‘of the Holy Qur’an, Allah Almighty mentions this mosque in these words: Al-Aqsa Mosque was taken around which we have blessed so that we can show him some examples of our power. Surely, Allah is the All-Hearing, the All-Seeing ”(Surat al-Isra ‘). According to the hadiths, traveling to only three mosques in the world is a blessing, including Masjid al-Haram, Masjid al-Aqsa, and Masjid al-Nabawi. During the reign of Omar Farooq, the Muslims conquered Jerusalem, but Omar left the city. He ordered the construction of a mosque near the place where the rock and the shining were tied, where he and his companions prayed. This mosque was later called Al-Aqsa Mosque because at the beginning of Surah Bani Isra’il of the Holy Quran this place was called Al-Aqsa Mosque. During this period, many Companions took up residence in Jerusalem to preach Islam and spread the religion. Caliph Abdul Mulk bin Marwan started the construction of Al-Aqsa Mosque and Caliph Walid bin Abdul Mulk completed its construction and renovation. The Abbasid Caliph Abu Ja’far Mansur also repaired the mosque. After the First Crusade, when the Christians occupied Jerusalem, they made many changes in Al-Aqsa Mosque. They built several rooms in the mosque to live in and named it the Temple of Solomon, as well as and added buildings that were used as necessities and granaries. They built a church inside the mosque and along with the mosque. After the conquest of Jerusalem in 1187, Sultan Salahuddin Ayubi cleansed the Al-Aqsa Mosque of all traces of Christianity and rebuilt the mihrab and mosque. Salahuddin fought about 16 battles for the liberation of the first qiblah. Anti-Semitism is a permanent chapter of history. Every student of Islamic history is aware of the revolts and conspiracies of the Jews of Madinah during the Prophet’s time. For the last fourteen centuries, the Jews have taken a hostile attitude towards Muslims in particular and against other human beings in general. The greatest tragedy of the twentieth century is the issue of Palestine. By creating this problem, the Jews and the Christians seem to have stabbed Islam in the heart. After the establishment of Israel in 1948, the usurping Jews came from Europe. On August 21, 1969, Dennis Michael Rohan, an Australian Jew, set fire to the first qiblah, which engulfed the Al-Aqsa Mosque for three hours, and a large mosque to the southeast. Part fell. The pulpit in the mihrab, which was erected by Salahuddin Ayubi after the conquest of Jerusalem, also caught fire. ۔ In fact, the Jews consider this mosque to be a place of worship built on the site of the Temple of Solomon and want to demolish it and rebuild the Temple of Solomon, although they have never been able to prove by the argument that the Temple of Solomon was built here for more than half a century. Hundreds of thousands of Palestinian Muslims have been martyred, wounded, or displaced by Israeli Jewish aggression and war, and millions live in miserable conditions in camps in Occupied Palestine or neighboring countries. The United States and the countries of Europe remain patrons and patrons of the Jews. The book under review, “The Effort to Make the Holy City a Jewish City” is the work of Dr. Anwar Muhammad Zinati. This book is a credible, detailed, fact-based documentary on Israel’s atrocities in the Palestinian territories, exposing the Israeli conspiracy like the midday sun. In it, Israel’s historic oppression and state terrorism are illustrated through official documents, photographs, and maps. May Allah Almighty make this book a means of awakening the pride of the Islamic world and may Jerusalem soon fall into the hands of its rightful owners. A’meen.
Download Book | Size: 4.0 MB | Downloaded 64 times